Saturday, December 18, 2010

Wen Jiabao Visit to India

وین جیا باو ¿ کا دورہ ¿ ہند
حال ہی میں ہندوستان کے دورے پر آئے غیر ملکی مہمانوں میں چین کے زیراعظم وین جیا باو ¿ کا دورہ کئی اعتبار سے دیگر مہمانوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان اور چین دونوں پڑوسی ممالک ہیں اور دونوں کے درمیان کئی طرح کے تنازعات ہیں، جس کی وجہ سے آپسی تعلقات میں مٹھاس ابھی تک نہیں آپائی ہے جو سچ مچ ہونی چاہئے۔ بنیادی طور پر دونوں ممالک تیزی کے ساتھ ترقی کی جانب گامزن ہیں، دونوں ملکوں کی آبادی پوری دنیا کی نصف آبادی سے تھوڑی کم ہے۔ دونوں کے مابین بہت سی چیزیں مشترک ہیں لیکن سرحدی تنازع، کشمیر اور اروناچل پردیش کے باشندوں کو اسٹیپل ویزا دینا، پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں چینی سرگرمیاں وغیرہ ایسے امور ہیں جو دونوں کے درمیان تلخی کا سبب بنتے رہے ہیں۔ چینی وزیراعظم کا یہ دورہ اس اعتبار سے کافی اہمیت کا حامل ہے کہ مذکورہ مسائل پر دونوں ممالک ایک دوسرے سے کھل کر بات چیت کر سکیں گے اور آپسی تعلقات میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے انہیں علیحدہ طور پر عشائیہ دیا اور غالب گمان ہے کہ مذکورہ حل طلب امور پر ضروربات چیت ہوئی ہوگی۔ ایسے وین جیا باو ¿ نے ہندوستان میں داخل ہوتے ہی جن خیالات کا اظہار کیا اس سے پیشگی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ متنازع امور کے حل پر سنجیدگی سے غور کرسکتے ہیں۔ انہوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ ہندوستان اور چین ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ معاون ہیں۔ اسی لئے دونوں ملکوں کو ڈریگن اور ہاتھی کے طور پر نہ دیکھا جائے۔ انہوں نے ہندوستان آنے کا مقصد دوستی کو بڑھانا، تعاون کے میدان کو وسیع کرنا اور ماضی کی کامیابیوں کی بنیاد پر دونوں ملکوں کے درمیان یکساں ترقی اور آپسی فوائد کےلئے دروازوں کو کھولنا بتایا ہے۔ ظاہر ہے یہ نیک مقاصد ہیں۔ ان مقاصد کے حصول میں جو بھی رکاوٹیں ہیں ان کو دور کرنا دونوں کی ترقی کےلئے از حد ضروری ہے۔ ایسے مذکورہ مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ جموں و کشمیر کے باشندوں کو اسٹیپل ویزا دینے کے مسئلہ کو جلد ختم کئے جانے کی بات کہی ہے۔ یہ مسئلہ چونکہ ہندوستان کےلئے بے حد تشویش کا باعث تھا، اس لئے چین کی اس یقین دہانی کے بعد اور بھی دیگر مسائل کے حل کا راستہ ہموار ہوجاتا ہے تو یہ ان کے دورے کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ وین جیا باو ¿ کے ساتھ 400 افراد کا ایک وفد بھی آیا ہے جس میں امور خارجہ، ٹرانسپورٹ، کلچر، منصوبہ بندی اور ریاستی کونسل کے وزراءاور بہت سے نائب وزراءاور کاروباری شامل ہیں۔ حال ہی میں امریکہ اور فرانس کے صدور کے دورے میں اربوں ڈالر کا معاہدہ ہونے کے بعد چین کے وزیراعظم نے بھی 16 ارب ڈالر کے سمجھوتے کا اعلان کیا ہے۔ ایسے دونوں ملکوں کے درمیان اگر تجارتی سطح پر بات آگے بڑھتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے یہاں کاروبار کرتے ہیں تو اس کا سب سے بڑا فائدہ آپسی تعلقات اور رشتوں کی مضبوطی کی شکل میں برآمد ہوگا۔ وین جیا باو ¿ کا یہ دوسرا ہندوستانی دورہ ہے۔ پہلی مرتبہ بھی انہوں نے کہا تھا کہ ان کے دورہ سے دوستی کو بڑھاوا ملے گا اور دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کا دائرہ وسیع ہوگا۔ اس مرتبہ ان کے ساتھ جتنا بڑا وفد آیا ہے اس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چین تلخیوں کو پیچھے چھوڑ کر آپسی تعاون کے لئے سنجیدہ ہے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو عالمی سطح پر ایشیاکی امیج کافی مضبوط ہوجائے گی اور ہندوستان اور چین دنیا کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس وقت ہندوستان کو تمام چھوٹے بڑے ممالک کے تعاون کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں مستقل رکنیت کےلئے ہندوستان کو جتنے ملکوں کی حمایت حاصل رہے گی اتنا ہی اچھا ہوگا۔ چنانچہ کئی ملکوں نے پیشگی طور پر اس سلسلے میں ہندوستان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ چینی وزیر اعظم نے بھی حمایت کا اعلان کرکے دوستی کی نئی عبارت لکھنے کی طرف ایک اہم قدم بڑھادیا ہے۔ ہندوستان کو چین کی طرف سے تھوڑا شبہ تھا جسے وین جیا باو ¿ نے دور کردیا۔ یوں بھی آج کے حالات میں پرانے جھگڑوں کی گھنٹی باندھ کر آگے بڑھنے کا تصور فضول ہے۔ عالمی سطح پر بڑی تیزی کے ساتھ تبدیلی رونما ہورہی ہے۔ ایشیا کے بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کے حل میں دونوں ممالک اپنا اپنا تعاون پیش کر سکتے ہیں، لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب آپسی تعلقات اچھے ہوں گے، پرانے جھگڑے ختم ہوجائیں گے اور دوستی کا ہاتھ مضبوط ہوجائے گا۔ امید کی جانی چاہئے کہ چینی وزیراعظم کے حالیہ دورے سے حالات مزید بہتر ہوں گے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب ہوں گے۔

No comments:

Post a Comment